كيادرودپاک بطور ورد کافی ہے؟

 



کیا درودِ پاک بطورِ وِرد کافی ہے؟

بے شک درودِ پاک بطور وِرد کافی ہے۔

1- تصوف کی راہ میں پیار اور عشق و محبت کو بہت دخل ہے۔ اگر انسان کسی فقیر سے دل سے پیار کرتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ اُس کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے لگتا ہے کیونکہ انسان جس سے پیار کرتا ہے اُسے یاد بہت کرتا ہے۔ وہ اُس کے دھیان میں لگا رہتا ہے اور لاشعوری طور پر اُس کی اچھی چیزوں کی نقل کرنے لگتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی فقیر سے پیار کرے تو اُس کے انداز، الفاظ اور طرزِ گفتگو کی نقل کرنے لگے گا۔ اگر فقیر یہاں سے پیدل چلتا ہوا اسلام آباد گیا ہے تو اُس کے نقشِ قدم پر چلنے والا بھی لامحالہ اسلام آباد ہی جا پہنچے گا۔ جب ہم کسی سے پیار کرتے ہیں تو اُس کی تقلید کرنے لگتے ہیں اور وہیں جا پہنچتے ہیں جہاں وہ شخص گیا ہوتا ہے۔

آپ ﷺ کا معاملہ تو بہت آگے کا ہے۔ آپ ﷺ اللہ کے بعد سب سے بلند و بالا ہیں۔ جب کوئی شخص آپ ﷺ سے پیار کرتا ہے تو اُسے جواب میں آپ ﷺ کی نظرِ عنایت ملتی ہے اور جس کو آپ ﷺ کی نظرِ عنایت مل جائے اُس کا دنیا و آخرت میں بیڑا پار ہے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق بخشے کہ وہ دن رات درودِ پاک کا وِرد رکھے اُس سے بڑھ کر خوش نصیب کون ہوگا۔

2- تصور باندھنے کا معاملہ در حقیقت توفیق اور اپنی اپنی پہنچ اور اپنے اپنے تصور (Concept) سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک آدمی آپ ﷺ سے پیار کرتا ہے۔ اس کا تصور یہ ہے کہ رب سے میرا تعلق یہ ہے کہ وہ میرا مالک ہے اور میں اُس کا بندہ، وہ آقا ہے اور میں اُس کا غلام۔ وہ میرا پالنے والا اور محسن ہے، لیکن وہ اتنا بلند ہے کہ میری رسائی وہاں تک نہیں۔ اس لیے میں کسی ایسی ہستی کو پکڑ لوں جس کی رسائی اللہ کی بارگاہ تک ہے۔ شاید وہ خوش ہو کر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اللہ کے دربار میں پیش کردے۔ جب انسان ایسی ہستی کی تلاش کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ہستی ایک ہی ہے — محمد مصطفیٰ ﷺ۔

جدید تر اس سے پرانی
مجلسوں کی زینت نبی کریم ؐ پر درود پاک پڑھنا ہے ، لہذا مجالس کو درود پاک سے مزین کرو۔

Breaking Posts

درود شریف ہر مرض کا علاج اس لیے ہے کہ اس کا پڑھنے والا براہ راست حضور نبی اکرم مُحَمَّدْﷺ سے توجہ حاصل کرتا ہے

درود شریف