درود شریف اس طور پر نہ پڑھا کریں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں۔ نہ ان کو جناب حضرت رسول اللہﷺ سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضور ِصل اللہ علیہ والہ وسلم سے اپنے رسول مقبولؐ کے لئے برکاتِ الٰہی مانگتے ہیں۔ بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطۂ محبت آنحضرتﷺ اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہر گز اپنا دل تجویز نہ کرسکے کہ ابتدائے زمانہ سے انتہاء تک کوئی ایسا فرد بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جواس سے ترقی کرے گا۔ اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہوسکتا ہے کہ جو کچھ محبانِ صادق آنحضرتﷺ کی محبت میں مصائب اور شدائد اٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اٹھا سکیں یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کرسکتی ہے وہ سب کچھ اٹھانے کے لئے دلی صدق سے حاضر ہو۔ اور کوئی ایسی مصیبت عقل یا قوّتِ واہمہ پیش نہ کرسکے کہ جس کے اٹھانے سے دل رک جائے اور کوئی ایسا حکم عقل پیش نہ کرسکے کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو…پس جب اس طور پر یہ درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلا شبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے۔
اور حضور صل اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گر یہ و بکاساتھ شامل ہو اور یہاں تک یہ توجہ رگ اور ریشہ میں تاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہوجائے۔’’
‘آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کہ کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں … اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو (ذاتی غرض کوئی نہ ہو)۔ اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔’’
١_ جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم
byAbdullah IQBAL